بجلی کی فی یونٹ قیمت میں اضافے اور بے تحاشا ٹیکسز کے باعث اس وقت ملک بھر میں احتجاج جاری ہے۔ آزادکشمیر کے ضلع پونچھ سے شروع ہونے والی اس تحریک میں بجلی کے بل میں جابجا ٹیکسز پر سوال اٹھایا جا رہا ہے  لیکن ان باتوں کے علاوہ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں بجلی اس قدر مہنگی کیوں ہے؟

نجی پیداواری پلانٹ یا آئی  پی پیز

پرائیویٹ پاور اینڈ انفرا اسٹرکچر بورڈ (پی پی آئی بی) کے مطابق آئی  پی پیز کہلائے جانے والے یہ نجی پاور پلانٹس  ملک کی کل بجلی کی پیدوار کا 50 فیصد سے بھی زائد حصہ پیدا کرتے ہیں۔ بجلی مہنگی ہونے میں ان کا کوئی براہ راست کوئی کردار تو نہیں مگر چند بنیادی عناصر ایسے ہیں جن کے باعث ان پلانٹس کی پیدا کردہ بجلی مہنگی پڑتی ہے۔

پیداواری صلاحیت  کی قیمت

عارف حبیب لمیٹڈ سے منسلک ریسرچ انالسٹ راؤ عامر علی نے وی نیوز کو بتایا کہ سنہ 1990 کی دہائی میں حکومت پاکستان نے آئی پی پیز کے ساتھ بجلی پیدا کرنے کے معاہدات کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک آئی پی پیز کے ساتھ بیسیوں معاہدے کیے گئے ۔ حکومت کا یہ فیصلہ وقت کی ضرورت تھا کیونکہ ملکی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی اور بڑھتی ہوئی بجلی کی مانگ پوری کرنے کے لیے آئی پی پیز کے ذریعے بجلی بنوانا دانشمندانہ اقدام تھا۔

تاہم ان معاہدات میں پلانٹس کی پیداواری صلاحیت  کی قیمت بھی شامل تھی۔ اس ادائیگی کو پلانٹ کا کرایہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ یعنی اگر ایک پلانٹ 100 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور حکومت نے اس سے ایک ماہ کے دوران صرف 20 میگا واٹ بجلی پیدا کروائی تو اسے ماہانہ ادائیگی  100 میگا واٹ کی صلاحیت کے حساب سے ہی کی جائیگی۔ البتہ ماہانہ ادا کی جانے والی اس ادائیگی میں 20 میگا واٹ بجلی کی قیمت بھی شامل ہوگی جو حکومت نے اس سے ایک ماہ کے دوران پیدا کرائی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ   صلاحیت کی مد میں آئی پی پیز کو کی جانے والی ماہانہ ادائیگیاں بجلی مہنگی کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔

پیداواری لاگت میں اضافہ

حکومت آئی پی پیز کو کرایہ یا ان کی پیداواری صلاحیت کی قیمت  ادا کرنے کے علاوہ ان سے بنوائی جانے والی بجلی کی قیمت بھی ادا کرتی ہے۔ یہ ساری ادائیگیاں ماہانہ بنیادوں پر کی جاتی ہیں۔ اب یہ پلانٹس بجلی پیدا کرنے کے مہنگے طریقے استعمال کرتے ہیں۔ پی پی آئی بی کے مطابق یہ پلانٹس کل 27 ہزار 7سو 71 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ اس میں سے تھرمل طریقے سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت  21 ہزار ایک سو 21 میگا واٹ ہے اور یہ بجلی پیدا کرنے کے مہنگے ترین طریقوں میں سے ایک ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ آئی پی پیز اپنی پیداواری صلاحیت کی قیمت اور مہنگی بجلی پیدا کرنے کی وجہ سے پاکستان میں بجلی مہنگی ہونے کا باعث بنتی ہے۔

روپے کی بے قدری اور ڈالر کی اڑان

بزنس رپورٹر شہزاد پراچہ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ڈالر کی اونچی اڑان بجلی مہنگی ہونے کی دوسری بڑی وجہ ہے۔ ان کے نزدیک آئی پی پیز کے ساتھ کیے جانے والے ‘مہنگے’ معاہدے بجلی مہنگی ہونے کی پہلی جبکہ بجلی چوری ہونا تیسری وجہ ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ آئی پی پیز چونکہ غیر ملکی سرمایہ کار ہیں اس لیے انہیں ادائیگیاں بھی پاکستانی روپے کے بجائے ڈالر میں کی جاتی ہیں۔ ان پلانٹس کی حکومت کے اپنے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کے مقابلے میں پیداواری لاگت بھی زیادہ ہے۔

آئی پی پیز گورنمنٹ کی جانب سے کہی گئی بجلی پیدا کرکے سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) کو دیتی ہو جو اسے 10 سرکاری اور ایک پرائیوٹ ڈسٹری بیوشن کمپنی کے ذریعے ہر قسم کے صارفین تک پہنچاتی ہے۔ یہی  کمپنیاں ہر ماہ بجلی کے بل جاری کرتی ہیں ۔ صارفین اپنے بل روپوں میں ادا کرتے ہیں جبکہ آئی پی پیز کو ادائیگیاں ڈالر میں کی جاتی ہیں۔ تو جب ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو اس کا اثر براہ راست بجلی کے صارفین پر پڑتا ہے اور ان کے بجلی کے بل زیادہ آنا شروع ہو جاتے ہیں۔

ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے محض ایک سال کے اندر عام صارف کے بل میں فی یونٹ 6 روپے کا اضافہ ہوا کیونکہ مالی سال  2023 میں آئی پی پیز کی پیدا کردہ فی یونٹ کی لاگت 11 روپے تھی جو کہ اب ڈالر کی اونچی اڑان کے سبب 17 روپے ہو گئی ہے۔ یوں بجلی بنانے والے کارخانوں کی لاگت، بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی لاگت، فنانسنگ کی لاگت اور حکومتی ٹیکسز ملا کر صارفین کا بل بنتا ہے جس کے بوجھ تلے وہ دب کر رہ گئے ہیں۔

مفت یا چوری کی بجلی

راؤ عامر علی کے مطابق ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی جانب سے کیا جانے والا نقصان بھی بجلی کی قیمت پر اثرانداز ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پچھلے ایک سال میں سرکاری ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے 400 ارب روپے سے بھی زیادہ نقصان کیا۔ اس نقصان سے مراد یہ ہے کہ جتنی لاگت کی بجلی تقسیم کی گئی اتنی مالیت کے بل وصول نہیں کیے گئے۔ سرکاری سرپرستی میں چلنے والی یہ کمپنیاں صارفین کو دی جانے والی بجلی کی کل مقدار کے 70 سے 90 فیصد حصے کی ہی قیمت وصول کر پاتی ہیں۔ باقی کی 10 سے 30 فیصد بجلی نقصان میں شمار ہوتی ہے۔

اس نقصان کی 2 بنیادی وجوہات ہیں۔ پہلی یہ کہ بجلی کی اچھی خاصی مقدار سرکار ی ملازمین کو فری یا رعایتی قیمتوں پر دے دی جاتی ہے جبکہ دوسری یہ کہ ان کمپنیوں کی ملی بھگت سے بہت ساری بجلی چوری کر لی جاتی ہے۔ پھر یہ بھی کہ اس کمپنی کے ملازمین بالخصوص کمرشل یا گھریلو صارفین سے اپنی مرضی یا پھر کسی اور کے کہنے پر بل وصول نہیں کرتے جس کا ازالہ عام آدمی کو مہنگی بجلی کی صورت میں برداشت کر نا پڑتا ہے۔

راؤ عامر نے بتایا کہ ان 10 سرکاری ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں سے فی الحال فیسکو کی کارکردگی سب سے بہتر ہے کیونکہ اس کا نقصان صرف  4 فیصد ہے۔

حل کیا ہے؟

مہنگی بجلی کی وجوہات اور اس کے سستی ہونے کے امکانات پر مختلف ماہرین اور صحافیوں اور تجزیہ کاروں سے بات کی جن کی متفقہ آراء یہ تھیں کہ معیشت کی تنزلی اور حکومت کی نااہلی بجلی مہنگی ہونے کی بنیادی وجوہات ہیں۔

ان کے مطابق جب نواز شریف کی حکومت نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدات کیے تھے تب معیشت تیزی سے ترقی کر رہی تھی اور دوراندیشی کا تقاضہ تھا کہ بجلی کی پیداوار بڑھائی جائے تاکہ انڈسٹری کے ساتھ ساتھ گھریلو صارفین کی بڑھتی ہوئی مانگ پوری کی جا سکے۔ تاہم ن لیگ کی حکومت کے خلاف سازشوں، پی ٹی آئی کی نااہل حکومت، اور کورونا وبا کے پھیلاؤ نے ملکی معیشت کو کمزور کیا جس کے باعث بجلی کی مانگ میں کمی ہوئی اور آئی پی پیز کی پیداواری صلاحیت کی مد میں ماہانہ ادائیگیاں ایک اضافی بوجھ بن کر رہ گئیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر پاکستان کو بجلی کی قیمتوں میں کمی کرنی ہے تو اسے ملکی معیشت کو پہیے ہی نہیں بلکہ پر لگانے ہونگے۔

مہنگی بجلی کے مسئلے پر حکومت ہمیشہ جو ایک غلطی کرتی ہے وہ آئی پی پیز کا ناطقہ بند کرنا ہے، حالانکہ قصور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا ہوتا ہے۔ لہذا آئی پی پیز کے بجائے ڈسٹری بیوشنز کمپنیوں پر ہاتھ ڈالنا چاہیے کیونکہ یہ کرپشن، اقربا پروری اور نااہلی کے باعث حکومت کے لیے خسارے کا باعث بنتی ہیں۔ نااہلی، کرپشن، غیر منصفانہ مراعات اور رعایتوں کا خاتمہ بجلی کی قیمتوں میں واضح کمی لا نے کا باعث بن سکتا ہے۔ واپڈا سمیت دیگر تمام سرکاری اداروں اور محکموں کے افسران کو دی جانے والی مفت یا رعایتی بجلی بند کرنی ہوگی اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں سے کرپشن کا خاتمہ کرنا ہوگا۔

اس سے بہتر حل پرائیویٹائزیشن ہے کیونکہ کے-الیکٹرک کے پرائیویٹ ہونے کے بعد اس کا خسارہ 30 فیصد سے کم ہوکر 15 فیصد رہ گیا ہے۔ اس طرح اگر باقی کی 10 سرکاری ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو بھی پرائیویٹ کر دیا جائے تو مقابلے کی فضا پیدا ہوگی اور کرپشن کا خاتمہ ہوگا جس سے عام صارف کو سستی بجلی اور بہتر سروسز مہیا کرنے کا رستہ کھلے گا۔

اس کے علاوہ کم لاگت والے بجلی پیدا کرنے کے طریقے اپنانے ہونگے ۔ حکومت نے حالیہ عرصے میں فرنس آئل کے استعمال سے تھرمل بجلی پیدا کرنے کی حوصلہ شکنی کی اور گیس، کوئلے اور نیوکلیئر انرجی سے کم لاگت والی بجلی پیدا کرنے کے طریقوں کو فروغ دیا۔