سلام آباد ہائیکورٹ نے اپنا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطل کردی ہے۔

فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 رکنی بینچ نے دیا جس کی سربراہی چیف جسٹس عامر فاروق کر رہے ہیں۔ جب کہ بینچ میں شامل دوسرے جج جسٹس طارق محمود جہانگیری ہیں۔

5 اگست کو اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن عدالت سے عمران خان کو 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوئی تھی جس کے بعد انہیں زمان پارک لاہور سے گرفتار کر کے اٹک جیل بھیج منتقل کر دیا گیا تھا۔

سابق وزیراعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر محفوظ فیصلہ آج اسلام آباد ہائیکورٹ کا 2 رکنی بینچ نے سنا دیا۔

5 اگست کو اسلام آباد کی ایڈیشنل سیشن عدالت سے عمران خان کو 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا ہوئی تھی جس کے بعد انہیں زمان پارک لاہور سے گرفتار کر کے اٹک جیل بھیج منتقل کر دیا گیا۔

ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلے کے خلاف اپیل اور سزا معطلی کی درخواست پر پہلی سماعت 9 اگست کو چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کی۔

پہلی سماعت میں عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ کے ابتدائی دلائل دیے جس کے بعد فریقین کو نوٹسز جاری ہونے کے بعد سماعت کو 10 اگست تک ملتوی کردیا گیا تھا، تاہم چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کی طبیعت ناساز ہونے کے باعث اگلے روز سماعت نہیں ہوسکی تھی۔

چیف جسٹس ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق کی طبیعت ناسازی کے سبب درخواست اگلے ہفتے بھی سماعت کے لیے مقرر نہ ہوسکی اور دوسری سماعت 22 ستمبر کو ہوئی۔ جس میں عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے طویل دلائل دیے۔ جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل نے 2 ہفتوں کی مہلت مانگی تاہم لطیف کھوسہ کے احتجاج کے باعث سماعت 2 دن تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

اسی دوران 23 ستمبر کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے عمران خان کی ایڈیشنل سیشن عدالت کے دائرہ اختیار سے متعلق درخواست کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے ابتدائی سماعت میں ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلے کو بادی النظر میں غلط قرار دیتے ہوئے سماعت ایک روز تک ملتوی کرتے ہوئے ہائیکورٹ کا فیصلہ آنے تک کوئی حکمنامہ جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

اگلے روز اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہوئی توعمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے 3 نکات پر اپنے دلائل دیے۔ لطیف کھوسہ کے ایک گھنٹے پر مشتمل دلائل میں فوجداری مقدمہ دائر کرنے کے طریقہ کار، گوشوارے چیلنج کرنے کی مدت اور عدالت کا دائرہ اختیار شامل تھے۔